محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک سابقہ فوجی ہوں اور ہم سب گھر والے ماہنامہ عبقری کا ہر شمارہ بہت ذوق شوق سے پڑھتے ہیں‘ آپ کا ہر شمارہ قابل ستائش ہے‘ آپ کے شمارہ ماہ نومبر 2017ء کے صٖفحہ نمبر38 پر پاک فوج کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کے انوکھے واقعات جو سوفیصد درست ہیں‘ چونکہ میں بھی ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں اور میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کے واقعات ہوئے جن پر میں آج تک حیران و پریشان اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ واقعی رب تعالیٰ کی ذات عالی پاک فوج کی ہر محاذ پر مدد فرماتی ہے۔ آج مجھ سے بھی رہا نہ گیا‘ قلم اٹھایا اور اپنے ساتھ آنے والا ایک سچا واقعہ عبقری قارئین کیلئے ارسال کررہا ہوں۔
قارئین! یہ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا واقعہ ہے جبکہ ہماری یونٹ قصور سے آگے کھیم کرن میں داخؒل ہوئی‘ یادرہے کہ کھیم کرن کے محاذ پر پاکستان کا قبضہ رہا اور بھارت اپنی لاکھ کوشش اور جنگی سازوسامان کے باوجود بھی پاکستان سے قبضہ نہ چھڑواسکا۔ کھیم کرن کے محاذ پر دونوں اطراف سے گھمسان کی جنگ جاری تھی‘ دونوں اطراف سے بھاری توپخانے کے گولے برسائے جارہے تھے اور بندہ ناچیز اپنے دیگر جوانوں کے ساتھ بالکل فرنٹ موچوں پر پاک سرزمین کی حفاظت کیلئے برسرپیکار تھا۔
رات بھر شدید فائرنگ ہوئی مگر ہمارے جوان جان پر تو کھیل گئے مگر بھارت کو اس محاذ پر قبضہ نہ کرنے دیا‘ شدید شیلنگ کے نتیجے م یں ہمارے کئی ساتھی جوان جام شہادت نوش کرگئے۔ بندہ ناچیز اپنی کمپنی کا پڑھا لکھا نوجوان این سی او تھا اور جونہی صبح ہوئی اور شیلنگ قدرے بند ہوئی تو ہمیں اپنے شہیدوں کے جسدخاکی کواٹھانے کا موقع نصیب ہوئی۔
ہمارے کمانڈنٹ صاحب نے حکم دیا کہ تم شہدا کی جسدخاکی لے جاکر قصور کے قبرستان میں امانتاً دفنانے کیلئے لے جاؤ اور اس طرح میں ایک فوجی کارگو ٹرک میں تیرہ شہدا کے جسدخاکی انتہائی احترام کے ساتھ لے کر روانہ ہوا‘ میرے اور ڈرائیور سمیت ہم کل پانچ افراد تھے‘ راستے میں میں ان شہدا کی مقدر پر رشک کرتا رہا۔ کھیم کرن سے قصور آتے ہوئے راستے میں کئی بار دشمنوں کے لڑاکا جہازوں نے ہم پر گولے برسائے مگر خدا کی قدرت بالکل نشانے پر ہونے کے باوجود گولے ہمارے ٹرک کو نہ لگتے اور جونہی ہمارے لڑاکا بمبار آجاتے تو دشمنوں کے جہاز شاہینوں کا مقابلہ نہ کرسکتے اور بھاگ جاتے۔ قارئین! جنگ کے وہ دل دہلا والے مناظر اور اپنے وطن کی خاطر جذبہ شوق شہادت میں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ جب بھی مشکل آتی ہر بار اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور وہ کریم رب ہر بار ہماری مدد فرماتا۔ جنگی جہازوں سے بچتے بچاتے ہماری گاڑی قصور کے قبرستان جو کہ سڑک کے کنارے واقعہ تھا پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب شہداء کی لاشوں کو دفنانے کیلئے ہمارے پاس مورچے کھودنے والے معمولی سائز کے چھوٹے بیلچے اورکدال تھے۔ ہم کئی دن سے سو نہ سکے تھے اور جسم تھکاوٹ سے نڈھال تھا‘ ہم سوچ رہے تھے کہ تیرہ شہدا کیلئے قبریں بنانا ہمارے لیے کیسے ممکن ہوگا؟ لیکن پھر بھی ہمت نہ ہاری اور قبریں کھودنا شروع کردیں‘ چونکہ قصور شہر بارڈر کے قریب تر ہے تو اہل قصور بھی دوران جنگ اپنے اپنے گھروں میں محصور تھے جو ہماری مدد کیلئے نہ آسکے۔ بمشکل ہی ہم نے ایک قبر کی کھدائی مکمل کی اور دوسری قبر کھودنے لگےجب میں نے سوچا کہ زمین سخت ہے اور ہمارے کھدائی کے اوزار کمزور ہیں اور ہم چار، پانچ افراد انتہائی تھکے ماندے باقی قبریں کیسے کھودیں گے؟ بس یہ سوچ تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں قبرستان سے نکل کر سڑک پر آگیا‘ جہاں ہمارا فوجی ٹرک کھڑا تھا ہر طرف ہو کا عالم تھا‘ دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں ارہا تھا صرف خاموش ہی خاموشی تھی اور پھر بے اختیار اللہ رب العزت کے آگے سربسجود ہوگیا‘ اپنے رب کو اس انداز سے پکارا کہ مجھے خود بھی معلوم نہیں‘ سجدے سے اٹھ کر آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے‘ یااللہ تو ہی ہماری مدد فرما‘ تیری راہ شہید ہونے والوں کیلئے قبریں تیار کرنی ہیں ہماری مدد فرما‘ بس دعا کرکے بھاری دل کے ساتھ دوبارہ قبرستان کی طرف رخ کیا کہ دور سے ایک بس کی آواز آئی‘ کچھ ہی دیر میں وہ بس میرے قریب آکر رک گئی‘ یہ ایک بڑی بس تھی‘ جس میں لاہور یونیورسٹی کے طلباء و طالبات تھے‘ میں کچھ دیر کیلئے رک گیا کہ دیکھوں یہ بس کیوں رکی ہے‘ بس میں سے چند طلباء نیچے اترے اور میرے قریب آکر کہا (باقی صفحہ نمبر34 پر)
(بقیہ: اہل لاہور واقعی زندہ دلان ہیں)
’’سر کیا ہماری مدد کی ضرورت ہے؟‘‘ میں نے فوراً آسمان کی طرف سر اٹھایا‘ آنکھوں سے شکرانے کے آنسو نکلے اور ان طلباء کو اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔ قارئین! یقین کیجئے کہ طلباء و طالبات سب کے سب بس سے نیچے اترے اور ہمیں ایک طرف آرام کرنے کیلئے کہا‘ بس سے کھانے پینے کی بہترین اشیاء لاکر دیں اور سب کے سب شہدا کیلئے قبریں کھودنے میں مصروف ہوئے جبکہ طالبات اندرون شہر سے لوگوں کو اپنے اوزار کے ساتھ لے آئی اور سب نے مل کر چند گھنٹوں میں شہدا کیلئے بہترین قبریں تیار کردیں۔ قارئین! مجھے ان عظیم شہداء کو امانتاً دفنانے کی دعائیں نہیں یاد تھیں لہٰذا طالبات نے قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو بلایا اور فرداً فرداً شہداء کے جسدخاکی کو قبروں میں اتارا اور بندہ ناچیز ہر شہید کے ساتھ اس کا آرمی نمبر‘ نام اور یونٹ کا نام لکھ لکھ کر رکھتا گیا تاکہ لواحقین کو اپنے اپنے شہید کو پہچاننے میں آسانی ہو۔ بندہ ناچیز اس وقت لاابالی نوجوان تھا اور نماز کا بھی زیادہ پابند نہیں تھامگر اللہ تعالیٰ کی شان کریمی اور ناچیز کی دعا ایسی قبول ہوئی اور پھر شہداء کی برکت اور راہ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے سبب ایسانظارا سامنے آیا کہ جس نے طلباء و طالبات کو ہمارے لیے فرشتوں کی صورت میں مدد کیلئے بھیجا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی پاک ﷺ پر میرا ایمان اس قدر پختہ ہوا کہ اس وقت سے لے کر آج تک جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو جب تک میری آنکھیں نم نہ ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ بارگاہ خداوندی میں میری نماز قبول ہوگی یا نہیں۔ ایک لمبا عرصہ گزر گیا اس تحریر کے ذریعے ان طلباء و طالبات جو عبقری پڑھ رہے ہیں دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ میرا سلام پہنچے۔ اہل لاہور واقعی زندہ دلان لاہور ہیں جنہوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم ملک اور اس عظیم ملک کی عظیم فوج کو نظربد سے بچائے اور ہمارے پیارے وطن کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنائے آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں